thumbnail

موبائل دوستی سے چدائی تک mobile dosti sa chudai tak pakistani sachi gandi kahani



موبائل دوستی سے چدائی تک 



میرا نام تنویر ہے اور میں کراچی  کا رہنے والا ہوں جو کہانی میں آپکو سنانے جا رہا ہوں یہ ایک ایسے واقعہ پر مبنی ہے جو میرے ساتھ تقریبا دو سال پہلے پیش آیا

تو بات کچھ یوں ہے کہ دوسال پہلے جب میں آفس میں کمپیوٹر پر کام کر رہا تھا تو میرے موبائل پر گھنٹی بجی جب میں نے موبائل کی سکرین پر دیکھا تو اس پر کوئی انجان نمبر ڈسپلے ہو رہا تھا خیر میں نے کال اٹینڈ کی اور ہیلو کہا مگر دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ میرے کافی دفعہ ہیلو ہیلو کہنے پر بھی جب کوئی جواب نہ آیا تو میں نے کال کاٹ دی۔ میں دوبارہ اب پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ کچھ دیر بعد پھر اسی نمبر سے میرے موبائل پر دوبارہ کال آئی اور میں نے دوبارہ کال رسیو کی تو موبائل پر دوبارہ وہی رسپونس ملا یعنی دوسری طرف سے کوئی بھی نہ بولا اور پھر کال کٹ گئی۔ اب میں اس طرح کی بار بار کال سے تنگ آ چکا تھا ایک طرف کام کا برڈن تھا اور دوسری طرف اس طرح کی بارر بار کالز۔ ابھی میں دل ہی دل میں کال کرنے والے کو بڑا بھلا کہہ رہا تھا کہ میرے موبائل کی دوبارہ گھنٹی بجی میں نے موبائل پر نمبر دیکھا تو دوبارہ پھر اسی نمبر سے کال آ رہی تھی اب کی بار میرا پارہ آسمان پر تھا اور میں نے جلدی سے کال اٹینڈ کی اور بس گالیاں نکالنے شروع کردیں۔ میں نے کال کرنے والے کو فون پر کہا بہن چود کیا گانڈ پروانی ہے جو بار بار فون کر رہا ہے تیر گانڈ پھاڑون ، تیری بہن کی کس، تیری بھدی میں لن ڈالوں میں اسی طرح موبائل پر بار بار تنگ کرنے والے کو گالیاں نکال رہا تھا اور جیسے ہی میں نے کال کرنے والے کو کہا کہ اگر میرا لن اتنا ہی پسند آ گیا ہے تو بہن چود منہ سے کیوں نہیں بولتا۔ تیری چدائی کی خواہش پوری کر دوں گا۔ ابھی میں نے یہ الفاظ کہے ہی تھے کہ دوسری طرف سے ایک نسوانی آواز سنائی دی تو کر دیں ناں خواہش پوری اور فون بند ہو گیا۔

اب فون کے بند ہوتے ہی سب سے پہلے میرا دھیان اپنے جاننے والوں کی طرف گیا کہ کیا یہ سب کوئی مزاق کر رہا ہے۔ کون ہو سکتا ہے۔ اب میرا دھیان کام کی بجائے اس فون کال کرنے والی کی طرف تھا خیر میں نے وہ نمبر اپنے موبائل میں سیو کر لیا۔ اب رات کو جب میں کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں سونے کے لیے آیا تو میں نے اسی نمبر پر کال کرنے کا سوچا کہ دیکھا جائے کہ کون ہے اور کیا چاہتا ہے۔ خیر میں بیڈ پر لیٹ گیا اور اسی نمبر پر کال ملا دی۔ اب اس نمبر پررنگ ہو رہی تھی مگر کسی نے بھی فون رسیو نہ کیا۔ میں نے دوسری بار دوبارہ کوشش کی۔ تو دوسری رنگ پر ہی فون رسیو ہو گیا۔ اور دوسری طرف سے کسی لڑکی نے ہیلو کون ؟ کہا تو میں نے کہا آپ کے اس نمبر سے صبح میرے اسی نمبر پر کافی کالز آ رہی تھیں کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ آپ کون ہیں اور کیا چاہتی ہیں۔ تو اس لڑکی نے کہا کہ اس نمبر سے آپ کو کال کیسے آ سکتی ہے یہ نمبر تو میرے پاس ہی ہوتا ہے اور میں نے تو آپکو فون ہی نہیں کیا۔ تو میں نے کہا دیکھیں میڈم آپ کا نمبر میرے فون کی رسیوڈ کالز لسٹ میں ابھی تک سیو ہے مجھے بھلا آپ سے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے۔ تو وہ لڑکی بولی اس کا مطلب ہے کہ میں آپ سے جھوٹ بول رہی ہوں تو میں نے کہا یہ تو مجھے نہیں پتا ہاں البتہ میں سچ بول رہا ہے میں بس اتنا جاتنا ہوں ۔ میرے اس جواب پر اس لڑکی نے کہا اچھا چلیں مان لیتے ہیں کہ صبح آپکو فون میں نے ہی کیا تھا اب بولیں کیا کریں گے آپ ؟ تو میں نے کہا میں نے آپکو فون نہیں کیا تھا فون آپ نے کیا تھا تو آب بولیں آپ کیا چاہتی ہیں۔ میرے اس سوال پر اس لڑکی نے مجھے ایسا جواب دیا جس کی میں امید بھی نہیں کر سکتا تھا یعنی میں نے ایسا سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی لڑکی ایسی بات کر سکتی ہے۔ اس لڑکی نے آپ بتائیں آپکو کیا چاہیئے کے جواب میں کہا کہ مجھے آپکا لن چاہیئے جس کا ۔ میں یہ جواب سن کر کچھ دیر خاموش ہو گیا۔ پھر وہ  لڑکی دوبارہ مجھ سے مخاطب ہوئی اور بولی کہ صبح تو تم بڑے دعوے کر رہی تھے اب کیا ہوا۔ کیا وہ سب دعوے ہی تھے۔ لگتا ہے مردانگی ختم ہو گئی اور یہ کہنے کے بعد وہ لڑکی قہقہہ لگا کر ہنسی۔ میں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں۔ میں نے آج تک کسی لڑکی کے ساتھ یہ سب نہیں کیا مگر مجھے اپنے آپ پر اتنا بھروسہ ہے کہ تمیں صبح میں تارے دکھلا دوں۔ یہ سن کر وہ لڑکی دوبارہ قہقہہ لگاکر ہنسی اور بولی اچھا تو دیکھ لیتے ہیں۔ میں نے اسے پوچھا بولو تم کہاں رہتی ہو تو اس نے کہا گھر میں ، یہ کہہ کر وہ پھر قہقہہ لگا کر ہنسی میں نے کہا جناب کا گھر کہاں ہے تو اس نے کہا یہ بات چھوڑو میں تمہیں کل فون کروں گی پھر دیکھتے ہیں کہاں ملنا ہے میں نے کہا ٹھیک ہے۔


بس اس لڑکی سے بات کرنی تھی کہ پوری رات مجھے نیند ہی نہ آئی پوری رات اس لڑکی کے بارے میں ہی سوچتا رہا میرا لن پوری رات کھڑا رہا صبح چار بجے جا کر آنکھ لگی اور خواب میں اسی لڑکی کے تصور کو چودتا رہا اور اسی دوران اختلام بھی ہو گیا۔

اب دن چڑھا اور روز کی طرح میں آفس چلا گیا مگر آفس میں اب میرا دل کہاں لگ رہا تھا بس تھا تو اسی لڑکی کی کال کا انتظار۔ اب ایک ایک منٹ بہت مشکل سے کٹ رہا تھا آپکو تو پتا ہے کہ مفت کی چوت کو کون چھوڑتا ہے۔ خیر میں ساتھ ساتھ کام بھی کرتا رہا اور کال کا انتظار بھی دن کے 12 بجے ہوں گے کہ میرے فون کی گھنٹی بجی تو میں نے ڈسپلے پر دیکھا تو اسی لڑکی کے نمبر سے مجھے کال آ رہی تھی میں نے جلدی سے فون آٹینڈ کیا تو وہی رات والی لڑکی نے مجھےسلام کیا اور حال چال پوچھنے کے بعد پوچھا کہ اس نے کہیں مجھے ڈسٹرب تو نیں کیا تو میں نے کہا نہیں میں تو صبح سے آپ کی ہی کال کا انتظار کر رہا تھا۔ میری یہ بات سن کر وہ ہنسنے لگی۔ پھر میں نے پوچھا کیا پروگرام ہے جناب کا تو اس نے کہا آپ ڈیفنس آ سکتے ہی کیا تین بجے تک میرا ڈیفنس میں گھر ہے بس آپ یہاں پہنچ کر مجھے کال کر لیں اسی نمبر پر میں نے کہا ٹھیک ہے میں پورے تین بجے آپ کے پاس ہوں گا ۔ پھر میں نے جلدی سے اپنا آفس کا کام مکمل کیا اور تین ڈھائی بجے آفس سے نکل پڑا اور تقریبا پورے ٹائم پر میں اس کی بتائی گئی ڈیفنس کے بلاک میں تھا میں نے اس کے دیئے ہوئے نمبر پر فون کیا تو اس نے کہا آپ وہیں رہو میں آتی ہوں۔ اب میں خیالوں میں اس کا سکیچ بنا رہا تھا کہ وہ ایسی ہو گی وہ ویسی ہو گی۔ ابھی میں انہی خیالوں میں تھا کہ میرے پاس ہنڈا کار آ کر رکی ۔ اس میں بہت ہی خوبصورت لڑکی بیٹھی تھی اب میں دعا کر رہا تھا کہ کاش یہ وہی لڑکی ہو جس سے میری آج ملاقات ہے اس لڑکی نے بھی میری طرف ایک دو بار دیکھا اور گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہی اپنے بیگ میں سے اپنا موبائل نکالا اور کسی کو فون ملانے لگی۔ اس نے جیسے ہی اپنا موبائل اپنے کان کو لگایا میرے فون پر اسی نمبر سے بیل ہوئی میں نے فون اٹھایا تو اس لڑکی نے بھی مجھے پہچان لیا اور گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہی میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگی اس نے فون پر مجھے کہا آ جاو۔ یہ میں ہی ہوں اور میں اس کی گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا۔ اس نے ٹائٹ قسم کی پینٹ اور شرٹ پہن رکھی تھے گاڑی کی سیٹ پر بیٹھے ہوئے اس کے چوتر صاف دکھائی دے رہے تھے وہ نہ صرف بہت خوبصورت تھی بلکہ وہ نسوانی حسن سے بھی مالا مال تھی۔ اس کے ممے اتنے ٹائٹ اور بڑئے تھے کہ کوئی بھی انھیں دیکھے بنا نہیں رہ سکتا تھا۔ پھر وہ خود ہی مجھ سے مخاطب ہوئی اور بولی کہ جی جناب سنا ہے آپ چدائی کے بڑے ماہر ہیں اس کے یہ الفاظ کہنے تھے کہ میں شرما گیا اور سوچنے لگا کیا کوئی لڑکی اتنی بے باق بھی ہو سکتی ہے۔ مگر میں نے ہمت کی اور کہا آپ کو کوئی شک ہے تو وہ مسکرانے لگی۔ پھر اس کی گاڑی ایک بڑی سی کوٹھی کے سامنے جا کر رک گئی ایک ملازمہ نے دروزازہ کھولا اور وہ مجھے لے کر گھر کے اندر آ گئی اس کا گھر بہت شاندار تھا اس نے گاڑی گھر کے اندر پارک کی اور مجھے لے کر ٹی لانج میں آ گئی اس نے مجھے ٹی وی آن کر کے دیا اور مجھے کہا کہ وہ ایک منٹ میں آتی ہے اب میں سوچ رہا تھا کہ وہ لگتا ہے فریش ہونے گئی ہے میں سچ بتاوں میرا ٹی وی کی طرف بالکل بھی دھیان نہیں تھا میں تو اس لڑکی کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔ پھر اس کی ملازمہ میرے سامنے فروٹ اور دوسری کھانے پینے کی چیزیں رکھ کر چلی گئی میں نے ان میں سے ایک سیب اٹھایا اور اسے کھانے لگا ۔ اسی دوران وہ لڑکی بھی باہر آ گئی اس نے مجھے کہا اور لیجئے آپ نے تو کچھ لیا ہی نہیں ۔ میں نے کہا نہیں میں نے کچھ دیر پہلے ہی کھانا کھایا ہے اس لیے اتنی بھوک نہیں ہے۔ پھر اس نے کہا آیئے میں آپکو اپنا بید روم دیکھاتی ہوں اور وہ مجھے ساتھ لے کر اپنے بیڈ روم میں چلی گئی۔ اس کا بیڈ روم بھی بہت شاندار تھا اندر اے سی پہلے سے آن تھا اس نے مجھے بید پر بیٹھایا اور خود ہی کمرا لاک کر دیا۔ وہ میرے پاس اسی بیڈ پر بیٹھ گئی اور بولی کہ آپ نے اپنا نام بھی نہیں بتایا اور نا ہی میرا نام پوچھا ہے۔ تو میں نے کہا میرا نام تنویر ہے تو اس نے کہا میرا نام مہوش ہے۔ میں نے کہا بہت پیارا نام ہے اپکا تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا آپکا بھی نام بہت پیارا ہے اس کی بات پر میں بھی مسکرا دیا۔ پھر مہوش نے مجھے کہا کہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میرے پاس سب کچھ ہے پھر بھلا میں آپکو اپنے ساتھ کیوں یہاں لائی ہوں ۔ میں نے کہا ہاں میں تو کب سے یہی سوچ رہا ہوں بلکہ آپ کے گھر والوں کے بارے میں بھی سوچ رہا ہوں ۔ تو اس نے کہا کہ میں شادی شدہ ہوں اور یہ گھر میرے شوہر کا ہے جو کہ امریکہ میں رہتے ہیں۔ تین سال پہلے انہوں نے وہیں کسی لڑکی سے شادی کر لی دو سال پہلے ان کا یہاں پاکستان چکر لگا تھا۔ میرے پاس دنیا کی ہر چیز ہے۔ مجھے یہاں کسی چیز کی بھی کمی نہیں ہے مگر میرے نصیب میں شوہر کا پیار نہیں ہے۔ ہر عورت کے لیے مرد کا پیار بہت ضروری ہے اور ایک شادی شدہ عورت کو اس کی کتنی طلب ہوتی ہے اس کا آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ اس دن میں نےجب آپ کو فون کیا تو اس سے پہلے میری میرے شوہر سے بات ہوئی تھی جسے میری زرا بھی پروا نہیں اور اس وقت جب اسے میں نے کہا کہ اگر تم پاکستان نہ آئے تو تمہاری طرح میں بھی یہاں لڑکوں کے ساتھ دوستیاں کرلوں گی تو اس نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ جتنی مرضی دوستیاں کر لو اور اس نے فون بند کر دیا اور میں نے غصے میں آپ کو رونگ نمبر ڈائل کر دیا۔ تم نے اس دن مجھے کہا کہ تم میری چدائی کی خواہش پوری کر دو گے بس پوری رات مجھے نیند ہی نہیں آئی میں نے مہوش کی کہانی سنی تو میرا لن کھڑا ہو گیا کیوں کہ یہاں تو رستہ ہی بالکل صاف تھا میں نے آگے پڑھ کر مہوش کو گلے لگا لیا اور کہا کہ میں تمہیں شوہر کا پیار دوں گا تمیں اس کی کمی کبھی محسوس نہیں ہونے دوں گا اور یہ کہتے ہی میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور اسے بے انتہا کس کرنے لگا۔ وہ بھی مجھے ایسے نوچنے لگی جیسے وہ عرصہ دراز سے اسی چیز کی پیاسی ہو میں نے اس کو کس کرتے ہوئے ہی بیڈ پر لیٹا دیا اور اس کی گردن پر کس کرنے لگا پھر میں نے اس کے مموں کی طرف ہاتھ بڑھائے اور قمیض کے اندر ہاتھ ڈال کر اس کے ممے دبانے لگا اس کے ممے دبانا تھے کہ اس کی حالت خراب ہونے لگی وہ اس قدر مدہوش ہو گئی کہ جیسے اسے دنیا کا ہوش ہی نہ ہو میں نے اس کو خود ہی اٹھایا اور اس کی قمیض اتار دی اب قمیض کے نیچے اس نے برا پہن رکھی تھی جس کا رنگ لال تھا۔ میں نے اس کے لیٹے ہوئے ہی اپنے ہاتھ اس کی کمر پر لیجا کر اس کے برا کی ہک کھول دی اور برا کو اس کے مموں سے ہٹا دیا اب اس کے دونوں ممے آزاد تھے میں نے آج تک ایسے ملائی کی طرح سفید ممے نہین دیکھے تھے مجھ سے اب ان مموں کو دیکھ کر رہا نا گیا اور میں نے اس کے مموں کو اپنے منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کر دیا۔ میں کبھی اس کے مموں پر کس کرتا تو کبھی اس کے مموں کے نپلز اپنے منہ میں ڈالتا اور کبھی ان پر تھوڑا تھوڑا کاٹتا جیسے جیسے میں اس کے مموں پر پیار کرتا وہ اس قدر مدہوش ہوتی جاتی۔ پھر میں نے اس کی شلوار کی طرف رخ کیا اور اس کی شلوار جس میں لاسٹک ڈلا ہوا تھا اتار دیا ۔ اس کی چوت بہت پیاری تھِی یعنی عورتوں کی عموما چوت بال صاف کر کر کے کالی ہو چکی ہوتی ہے مگر اس کی چوت میں ایسی کوئی بات نہ تھی اور نہ ہی اس کی چوت پر کوئی بال تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ چدوانے کی مکمل تیاری کر کے آئی تھی۔ میں نے اس کی چوت کے اندر اپنی انگلی گھسانا چاہی تو میں نے محسوس کیا کہ اس کی چوت بہت زیادہ گیلی ہو چکی ہے۔ میں نے پھر بھی اپنی انگلی اس کی چوت میں گھسا دی۔ میں اپنی انگلی کو اس کی چوت میں گھمانے لگا کبھی میں اپنی انگلی کو باہر نکالتا اور اس کی چوت کے باہر والے حصے پر اپنی انگلی آہستہ آہستہ پھیرتا۔ میرے انگلی پھیرنے سے مہوش کی حالت اور زیادہ خراب ہوتی جاتی یعنی وہ مدہوشی کی وادیوں میں پہنچ کر آہستہ آہستہ میں سے آوازیں نکالتی جاتی۔ مجھے اس کی آوازیں بہت اچھی لگ رہیں تھیں۔ پھر میرا لن جو کافی دیر سے صبر کیے ہوئے تھا اب بے قابو ہونے لگا اب مزید صبر نہ کیا جا سکتا تھا تو میں نے اپنے لن کو سیدھا کیا اور مہوش کی چوت کا نشانہ لگایا اور دوسرے ہی لمحے میرا لن مہوش کی چوت میں تھا میرا لن مہوش کی چوت میں گھسنا تھا کہ مہوش نے آنکھیں کھول لیں۔ میرے لن کے اس کی چوت میں گردش کرنے سے اس کے ہوش اڑ گئے تھے پھر میں نے تھوڑا اور جھٹکا دیا تو اس نے کہا تنویر ذارا آرام سے ڈالو درد ہو رہا ہے کافی عرصے بعد جو کر رہی ہوں پھر میں ہلکے ہکے جھٹکے دینے لگا تو مہوش دوبارہ مدہوش ہونے لگی۔ اب کہ وہ پہلے سے زیادہ حد تک انجوائے کر رہی تھی یہ بات اس کی ہلکی ہلکی سسکیاں بیان کر رہیں تھیں۔ پھر اس نے آہستہ سے کہا تنویر تھوڑا زور سے کرو۔ میں نے جھٹکوں کی رفتار تھوڑا تیز کر دی۔ پھر اس نے کہا تھوڑا اور زور سے۔ تو میں نے تھوڑا اور زور سے جھٹکے دینا شروع کر دیے۔ پھر بیس منٹ بعد پہلے مہوش اور پھر میں بھی جھڑ گیا۔ لن عموما ڈسچارج ہو کر سو جاتا ہے مگر مہوش کی چوت کی ایسی گرمی تھی کہ میرا لن ابھی تک ڈسچارج ہونے کے بعد بھی کھڑا تھا اور دوبارہ چدائی کے لیے تیار تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ مہوش کی بھی یہی حالت ہے میں نے پھر مہوش کی طرف رخ کیا اور اس کو الٹا لٹا دیا۔ اب میں مہوش کی کمر پر کسنگ کر رہا تھا اور وہ بڑی طرح سسکیاں لے رہی تھی۔ پھر میری نظر دوبارہ مہوش کی بڑی سی گانڈ پر پڑی تو میری نیت اس کی گانڈ پر خراب ہونے لگی سچ میں اس کی چوت ہی نہیں گانڈ بھی بہت سیکسی تھی میں نے اس کی کمر پر کسنگ کرنے کے دوران ہی اپنا لن اس کی گانڈ پر رگڑنا شروع کر دیا۔ اب ایک ہاتھ میں میرا لن اور میرا دوسرا ہاتھ بیڈ پر تھا۔ میں ایک ہاتھ سے اپنا لن پکر کر مہوش کی گانڈ پر رگڑ رہا تھا اور پھر میں نے لن کو چھوڑا اور اپنے ہاتھ کی انگلی سے مہوش کی گانڈ کا سوراخ چیک کیا اب مجھے اندازہ ہو گیا کہ مہوش کی گانڈ کا سوراخ کہاں ہے بس میں نے دوبارہ اپنا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسے مہوش کی گانڈ پر ڑگڑنے لگا اور جب میرا لن مہوش کی گانڈ کے سوراخ پر پوری طرح پہنچا میں نے اپنے لن کا ٹوپا اس کی گانڈ میں گھسا دیا۔ میرے مطابق مہوش اس کے لیے تیار نہ تھی مگر اب لن کا ٹوپا اس کی گانڈ میں پہچ چکا تھا میرے لن کے ٹوپے کے گانڈ میں داخل ہوتے ہی مہوش زور سے چلائی پلیز ادھر سے مت کرو۔ پلیز اسے باہر نکالو یہاں درد ہو رہا ہے۔ میں نے کہا میں نے باہر نکال لیا ہے تو اس نے کہا نہیں ابھی اندر ہے پلیز اسے باہر نکال لو مجھے بہت درد ہو رہا ہے میں نے لن اس کے اندر ڈالے ہوئے ہی اس کی کمر پر کسنگ شروع کر دی۔ اور اسے کہا کہ لن باہر ہے اوردرد ابھی ختم ہو جائے گا میرے پیار کرنے سے اس کا کچھ دھیان میری کسنگ  کی طرف لگ گیا تو میں نے اپنا باقی لن بھی اندر داخل کر دیا اس بار مہوش پھر دوبارہ چلائی مگر اس بار اسے اس قدر درد نہ ہوا تھا جتنا اس کی چیخوں سے پہلے محسوس ہو رہا تھا۔  اب میں نے کچھ دیر پھر اس کی کمر پر کسنگ کی اور پھر آہستہ آہستہ اس کی گانڈ کو لن سے جھٹکے لگاتے ہو جھٹکوں کی رفتار تیز کرتا گیا۔ اب میں نے محسوس کیا کہ اب مہوش کی گانڈ بھی میرے لن کی طرح انجوائے کر رہی ہے۔ اس طرح میں نے مہوش کی گانڈ کے دو اور اس کی پھدی کے تین شارٹ لگائے اور مہوش کے گھر سے میں رات دس بجے واپس آیا۔ اب بھی ہفتے میں ایک بار میری مہوش سے ملاقات ضرور ہوتی ہے اور ہم خوب سیکس انجوائے کرتے ہیں۔
         

Subscribe by Email

Follow Updates Articles from This Blog via Email

No Comments

Total Pageviews

Powered by Blogger.